قرآن مجید خالق کائنات کی طرف سے انسانیت کے لیے آخری صحیفہ ہدایت اور رہتی دنیا تک کے لیے رب العالمین کی مرضیات کا ترجمان ہے۔ قرآن کریم کی اس عظمت اور اللہ تعالیٰ کے اس عظیم احسان کی صحیح شکر گذاری کا تقاضا ہے کہ ہماری فکر و نظر کا محور و مرکز یہی کتاب الہی ہو اور عملی زندگی کے ہر گوشہ میں یہ نور مبین ہمارے لیے حقیقی مشعل راہ ہو۔ قرآنی حقائق و معارف سے فیض یاب ہونے اور اس کے متعین کردہ خطوط پر انفرادی و اجتماعی زندگی کی تعمیر کے لیے ناگزیر ہے کہ اس پر غور و فکر کا سلسلہ بغیر کسی انقطاع کے جاری رہے اور اس کی تعلیم و تشریح کا آوازہ برابر بلند ہو تا رہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مسلمان کسی دور میں بھی اس احساس سے خالی نہیں رہے، لیکن کتاب اللہ کی عظمت اور اس کی اساسی حیثیت کا تقاضا ہے کہ نگاہیں ہر وقت اس کی طرف متوجہ رہیں، مختلف انداز اور مختلف پہلوؤں سے اس سے ربط و تعلق کو ہمیشہ تازہ و استوار رکھا جائے اور قرآنی علوم
و معارف کی توسیع و اشاعت کے لیے ہر ممکن کوشش جاری رہے۔
اس احساس کے پیش نظر اللہ تعالی کی توفیق و مدد سے ۱۹۸۴ میں ادارہ علوم القرآن کا قیام عمل میں آیا۔
ہیڈ آفس کا سنگ بنیاد
ادارہ علوم القرآن کا قیام ۱۹۸۴ میں عمل میں آیا مگر اس وقت ادارہ کے پاس کوئی مستقل عمارت نہیں تھی لہذا ادارہ جزاء وقتی طور پر مختلف مقامات پر رہا۔ ادارہ کے دائرہ کار اور اس کے اغراض و مقاصد مستقل اس بات کے متقاضی تھے کہ ادارہ کی کوئی ذاتی عمارت ہو تا کہ یکسوئی کے ساتھ اس کے اغراض و مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکے لہٰذا ۲۴ / اکتوبر ۲۰۰۷ کو شیلی باغ، علی گڑھ میں ادارہ علوم القرآن کے ہیڈ آفس کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اور سرسید نگر ، علی گڑھ اس عارضی مقام سے اپنی نئی جگہ
پر منتقل ہوا۔
سوشل